از قلم: مولوی محمد کریم عارفی
ملک کے کمزور طبقات کو مضبوط بنانے اور سماجی اور معاشی اعتبار سے دلتوں
کو ترقی دینے کا جو خواب بابائے قوم مہاتما گاندھی اور دلتوں کے امید کی
کرن ‘دستور ہند کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے دیکھا آج اس خواب کی تعبیر
دلتوں کے بے بس چہرہ کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ اس سال کے ابتدائی تین
ماہ میں ہی دلت ظلم و ستم کے سینکڑوں کیس سامنے آئے ہیں۔ روی داس جینتی منا
رہے دلتوں کے ساتھ مدھیہ پردیش میں مار پیٹ کا معاملہ ہو یا ہریانہ کے
فرید آباد میں پنچایت انتخابات میں ووٹ نہ دینے پر دلتوں کو پیٹنے کا، حملہ
کرنے والوں نے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دلتوں پر ظلم کیا۔اتر پردیش کے
آگرہ میں ایک دلت خاندان کی صرف اس وجہ سے پٹائی کر دی گئی کیونکہ ان میں
سے ایک کا ہاتھ ایک برہمن کو چھو گیا تھا۔ اس خاندان میں ایک خاتون حاملہ
بھی تھی۔ دو دن پہلے یوپی کے قنوج میں ریپ کے بعد ایک دلت عورت کو تیزاب سے
نہلا دیا گیا. سب سے تازہ معاملہ راجستھان کے چتوڑ گڑھ سے سامنے آیا ہے
جہاں موٹر سائیکل چوری کے الزام میں دلت بچوں کو ننگا کرکے مارا پیٹا
گیا۔سابق مرکزی وزیر سچن پائلٹ کا کہنا ہے کہ دلتوں پر مظالم کے اس طرح کے
معاملے مسلسل سامنے آ رہے ہیں لیکن حکومت انہیں روکنے کے مناسب انداز میں
کوشش نہیں کر رہی ہے۔
پورے ملک میں ذات پات پر امتیازی سلوک کی جڑیں بہت گہری ہیں۔اس کی وجہ سے
سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دلت اور کمزور طبقات ہیں جو امتیازی سلوک اور
طرح طرح کے ظلم و ستم کے شکار ہے. کسی دلت کے کھانا بنانے سے کھانے کو
ناپاک ماننے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کے 27 فیصد
سے زیادہ لوگ کسی نہ کسی شکل میں چھوت‘چھات پر یقین رکھتے ہیں۔
حیدرآباد یونیورسٹی کے دلت ریسرچ اسکالر روہت ویملا کی خود کشی کے بعد
دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر چھڑی بحث کے ساتھ ہی دلتوں پر ظلم و ستم کے
مسلسل آ رہے واقعات نے دلتوں کی خود اعتمادی پر زخموں پر پر نمک چھڑکنے
جیسا کام کیا ہے۔ دلتوں کی رہنما سمجھی جانے والی بی ایس پی سربراہ مایاوتی
نے مرکزی حکومت کی نیت پر سوال اٹھایا ہے۔ مایاوتی کا کہنا
ہے کہ دلتوں
پرمسلسل ہو رہے حملوں کو روکنے کے لئے مرکزی حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔
دلت طبقہ کے لوگوں کو طرح طرح کے ظلم سہنے پڑتے ہیں ایس سی طبقہ سے تعلق
رکھنے والے دنیش واہنے کا خیال ہے کہ مرکز میں یا ریاست میں کسی بھی پارٹی
کی حکومت رہی ہو، دلت ظلم و ستم کے معاملات میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
ملک کے کئی مقامات پر معمولی سی غلطی پر دلتوں کو ننگا کر گھمایا جاتا ہے
یا کبھی ان کا سر منڈوا دیا جاتا ہے۔ معمولی سی بات پر دلتوں اور کمزور
طبقے کے لوگوں کو درخت سے باندھ کر لٹکا دئے جانے کے واقعات بھی ہوتی ہیں۔
قومی جرم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی)کے پچھلے پانچ سال کے اعداد و شمار
بتاتے ہیں کہ دلتوں کے خلاف ظلم و ستم کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ تاہم
2012 میں اس میں معمولی کمی آئی تھی. این سی آر بی کی ایک رپورٹ جو سال
2014 کی ہے، اس میں دلتوں کے خلاف 2013 کے مقابلے زیادہ اضافہ دکھایا گیا
ہے۔سال 2014 میں دلتوں پر 47,064حملوں کے واقعات ہوئے ہیں جبکہ 2013 میں
اس کی تعداد 39,408تھی۔ سال 2012 میں دلتوں پر حملوں کے واقعات کے
33,655کیس سامنے آئے تھے جبکہ اس کے ایک سال پہلے یعنی 2011 میں ہوئے,719
33 سے تھوڑے کم تھے۔ پانچ سال پہلے یعنی 2010 میں اس کی تعداد 33,712تھی۔
جرائم کی سنگینی کو دیکھیں تو اس دوران ہر دن دو دلتوں کا قتل ہوا اور ہر
دن اوسطا چھ دلت خواتین عصمت دری کی شکار ہوئیں۔
قانون تو سخت ہے ہی ، لیکن ملک میں جب تک انسانیحقوق اور آپس میں مساوات
کے تصور کو قائم نہیں کیا جائیگا تب تک دلتوں پر ظلم و ستم اور انکو
ہراساں کرنے کے واقعات پرروک لگاناممکن نہیں ہوگا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ
تعلیم، روزگار ‘ اور سیاسی اعتبار سے جب تک دلتوں کو مضبوطبنانے پر ہی دلت
اور کمزور طبقے کے لوگ بااختیار ہو پائیں گے۔ہندوستان کے دستورکے معمار
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر ذات پر مبنی جھگڑوں کے لئے ذات پات کے نظام کو ذمہ دار
مانتے تھے۔ ایسی صورت میں جب سیاسی قیادت اس مسئلہ کو حل کر حاصل کرنے میں
ناکام رہی ہے، تب سماجی تحریک کے ذریعے ہی دلتوں کو ظلم و ستم سے بچایا جا
سکتا ہے۔
محمد کریم عارفی
فاضل جامعہ نظامیہ و بی ۔کام عثمانیہ
kareem.khan95@gmail.com